Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”میں پوچھتی ہوں، کھانا آج کی تاریخ میں بن بھی جائے گا یا نہیں؟ مگر کسی بیٹی یا مما کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہورہا ہے۔“ کئی بار پوچھنے پر بھی جب کوئی جواب نہ آیا تو اماں جان کچن میں چلی آئیں۔

”یہاں آواز نہیں آتی اگر آتی تو جواب دیتی نا۔“صباحت نے کہا۔

”خیر سے کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھنے کی عادت تم ماں بیٹیوں کی پرانی ہے۔

” اماں! ہر وقت جلی کٹی باتیں نہ کیا کریں۔“ صباحت وہاں موجود ملازماوٴں کے خیال سے آہستگی سے گویا ہوئیں۔

”میں تو صاف بات کہتی ہوں اور یہ اتنی بنی سنوری ہوئی ہو، کیا کہیں جانے کا ارادہ ہے؟“ بنارسی میرون اور گولڈ ساڑھی میچنگ جیولری، چوڑیاں اور میک اپ میں صباحت خاصی اچھی لگ رہی تھی۔ اماں نے تعجب سے پوچھا۔
(جاری ہے)

”کہیں جائیں جب ہی تیار ہوتے ہیں، گھر میں تیار ہوکرر رہنا منع ہے؟“

”گھر میں تیار ہوکر رہنا سہاگنوں کا بری بات نہیں ہے مگر کچن میں بنارسی سوٹ پہن کر سرخی پاوٴڈر لگاکر کون احمق عورت کام کرتی ہے؟“ اماں جان کی یہ بری عادت تھی کہ وہ جب پسند کے خلاف کام دیکھتی تھیں تو کسی کا خیال نہ کرتی تھیں۔
اپنی رائے کا اظہار ببانگ دُہل کیا کرتی تھیں۔ نامعلوم بڑھاپے کے باعث وہ صبر و ضبط کھو بیٹھی تھیں یا صباحت اور ان کی دونوں صاحب زادیوں کی ہٹ دھرم و خود سرفطرت نے ان کو ناقابل برداشت حد تک صاف گو اور چڑچڑا کر دیا تھا کہ اب بھی ملازماوٴں کی موجودگی کے خیال سے بے فکر وہ بحث مباحثے میں الجھی ہوئی تھیں۔

”اماں جان! وہ دور گزر گیا جب عورت سر جھاڑ منہ پہاڑ لہسن پیاز کی بدبو میں بسی گھر کے کام کیا کرتی تھی کہ کسی کے پاس بیٹھ جائیں تو ساتھ والا ناک پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے پر مجبور ہوجائے۔
میں آج کی عورت ہوں، جہاں بھی ہوں گی، اسی طرح صاف ستھری اور مہکتی رہوں گی۔“ وہ بڑی نزاکت سے ہانڈی میں کفگیر چلاتی ہوئی گویا ہوئیں۔

”ارے ایسی گندی و پھوہڑ عورتیں تمہارے میکے میں ہوں گی، جن میں لہسن پیاز و مسالوں کی بدبو آتی ہوگی، ہمارے ہاں تو بھئی ہر کام کا لباس علیحدہ تھا۔ ہم بھی اپنے وقت میں سسرال میں بنتے سنورتے تھے لیکن اس طرح نہیں کہ کچن میں بھی جانا ہو تو پہلے میک اپ کریں نوج!“

”خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنانا کوئی تو آپ سے سیکھے اماں جان!“ صباحت کباب کی طرح جل بھن گئی۔
ساس بہو کی تکرار میں دونوں ملازمائیں مزے لے رہی تھیں۔

”تم جب تک جواب نہ دوگی، تب تک تمہارا ہاضمہ درست نہیں ہوتا۔“

”آپ کو کوئی کام تھا مجھ سے؟“ بالآخر ان کو ہتھیار پھینکنے پڑے تھے۔

”ہاں ، طغرل کے آنے کا وقت ہورہا ہے، کھانا تیار نہیں ہوا ابھی تک…؟ جب سے پری گئی ہے کچھ بھی ٹائم پر نہیں مل رہا ہے۔ صبح ناشتا بھی دیر سے لگا تو رات کھانابھی اور اب دوپہر کو بھی وہ ہی بے ترتیبی دکھائی دے رہی ہے۔
“ وہ ملازمہ کو چاول ابالتے دیکھ کر فکرمندی سے گویا ہوئیں۔

”سب تیار ہوجائے گا ابھی ، آپ پریشان مت ہوں۔“

”اچھا ! ایسا کرو ایک کپ چائے بناکر بھیج دو مجھے۔ “وہ پلٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”کھانے سے پہلے چائے پئیں گی تو بھوک مرجائے گی۔“

”وہ تو کب کی مر گئی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا پہلے پیوں یا بعد میں … کھاوٴں گی ایک چپاتی ہی … اب تم حیلے بہانے بنانے سے بہتر ہے چائے بناکر بھیجو۔

”خنجر چلاتی ہیں، کتنی بھی خدمت کرلو جو تا ہی پڑتا ہے۔ “ ان کے جانے کے بعد صباحت کی بڑبڑاہٹ جاری ہوگئی۔ پری کو گئے آج دوسرا دن تھا۔

وہ دیکھ رہا تھا دادی جان کے لبوں پر اس کا نام ہوتا ہے۔ وہ بات بات پر اس کا ذکر کرتی ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات بے دھیانی میں اس کو پکارنے لگتی ہیں صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اس کی عادی ہوچکی ہیں۔ یہ ان کی بے قراریاں و بے تابیاں بھلااس کو کہاں گوارہ تھیں وہ منصوبہ بناکر آیا تھا کہ ان کی محبت سود سمیت وصول کرے گا۔
پری نے سالوں اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر دادی کی محبت سمیٹی تھی، وہ اب ان کی محبت کے دریا سے پری کو ایک قطرہ بھی حاصل کرنے نہیں دے گا …! یہاں تو وہی پتے ہوا دینے لگے تھے کہ جن پر تکیہ تھا۔

”کیا ہوگیا طغرل! یہ منہ لٹکاکر کیوں بیٹھ گیا ہے، کیا ہوا؟“ اماں جان نے جب اس کی خاموشی کو محسوس کیا تو اچنبھے سے بولیں۔

”میں واپس جارہا ہوں دادی جان!“ اس نے چہرہ جھکائے سنجیدگی سے کہا تھا۔

”ہیں…! “ ان کا ہاتھ فوراً دل پرر گیا تھا۔ ”تُو تو کہہ رہا تھا کہ اب یہیں رہے گا؟“

”جی ، ارادہ تو میرا یہی تھا۔“ بے حد شرافت سے کہا گیا۔

”ارادہ یہی تھا تو پھر ایسی کیا آفت آگئی کہ یکدم جانے کا فیصلہ کرلیا؟“ اماں جان سخت مضطرب ہوگئی تھیں۔

”میں آپ کی خاطر آیا تھا، اتنا عرصہ دور رہنے کے بعد اب آپ سے جدا نہیں ہوا جاتا۔
مگر آپ کو میری ضرورت ہے جو یہاں رُکوں؟“

”ارے بس چپ کر … یہاں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور ان آٹھ دنوں میں ہی تجھ پر تیری آنٹی کی سنگت کا اثر ہوگیا ہے؟ صباحت کی طرح ہی چپرا (چالاکی) کر بات کرنے لگا ہے۔ جو بات ہے سیدھی کہہ دے۔“ وہ اس کی جانب گھورتی ہوئی گویا ہوئی تھیں۔

”ابھی جو آپ نے لفظ بولا ہے وہ سمجھ نہیں سکا ہوں، مگر جان گیا ہوں کہ اس کا مطلب اچھا نہ ہوگا اور یہ آپ نے صباحت آنٹی کا ذکر کیوں کیا ہے؟ وہ تو بہت اچھی ہیں۔
“ وہ حیرانی سے گویا ہوا تھا۔

’دور سے چمکتی ہر چیز سونا ہی لگتی ہے قریب جانے پر معلوم ہوتا ہے وہ پیتل ہے یا سونا! میں بھی اس کو سونا سمجھ کر بیٹے کے نصیب بگاڑچکی ہوں۔ ’“ ان کی دھیمی آواز میں ایک کرب چھپا ہوا تھا۔

”آپ! اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں دادی جان“

”ارے تم نے بھی تو مجھے باتوں میں لگالیا۔ میں پوچھ رہی تھی واپس جانے کی دھونس کیوں دے رہے ہو، ایسی کیا خطا ہوگئی مجھ سے …؟“ وہ جہاندیدہ تھیں فہم و فراست اعلیٰ درجے کی پائی تھی۔
لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ اس کی آوازو لہجے سے ادراک پاچکی تھیں کہ وہ کسی خفگی کے اظہار کے لیے محض دباوٴ ڈالنا چاہ رہا ہے۔

”خطا آپ سے نہیں، مجھ سے ہوئی ہے۔“ وہ منہ پھلا کر ان کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔

”اچھا … ! وہ کیا بھلا؟“

”آپ کی محبت میں دو ڑا دوڑا آیا اور آپ پہلے سے ہی کسی پری کی محبت میں گرفتار ہیں تو بھلا مجھ”دیو“ کی محبت کی آپ کو کیا ضرورت؟“ وہ روانی میں خود کو دیو کہہ گیا۔

”لو بھلا، اب ایسا بھی کیا غصہ کہ خود کو ہی دیو بناڈالا۔“ اماں جان بے ساختہ ہنس پڑی تھیں۔ وہ جھینپ گیا۔

”میری بات کو ہنسی میں نہ اڑائیں۔“

”پھر کیا پتنگ میں اڑاوٴں بچے!“

”دادی جان! آج آپ کو بتانا ہوگا، مجھ سے زیادہ محبت ہے آپ کو یا پری سے …؟ سچ سچ بتائیے گا۔“ وہ کسی ضدی بچے کی طرح مچل کر بولا۔

”میں پہلے بھی تم دونوں سے یکساں محبت کرتی تھی اور اب بھی دونوں سے برابر محبت کتی ہوں۔
کم نہ زیادہ، بالکل برابر۔“

”بے ایمانی ہے دادی جان! آپ کو اب مجھ سے زیادہ محبت کرنی چاہیے۔“

”وہ کیوں بھلا! اور یہ محبت بھی کوئی ترازو میں تلنے والی چیز ہے؟“ ان کے بارعب چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کسی کرن کی طرح ابھری تھی۔

”بے شک! محبت کا وزن دل کے ترازو میں ہوتا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں آپ کی محبت کے ترازو کا پلڑا پری کی طرف ہی جھکا ہوا ہے جو گھر میں نہیں ہے آپ کی پروا کیے بغیر چلی گئی ہے اُس کو ہر لمحہ آپ یاد رکھتی ہیں، میری تو آپ کو پرواہی نہیں ہے میرے آنے…“

”بلاوجہ کا بغض دل میں مت پال بیٹے! تو یہاں نہیں تھا تب بھی میں تجھ سے محبت کرتی تھی ، اب بھی کرتی ہوں بلکہ تجھے دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں اور رہا سوال پری کا تو اس بچی کا نام مت زبان پر لایاکر، وہ ایک مظلوم لڑکی ہے جس کو باپ کی محبت ملی نہ ماں کی۔

”جو محبت آپ اس کو دے رہی ہیں اس محبت کے آگے اس کو کسی اور محبت کی ضرورت بھی نہیں ہے دادی جان!“

”نہیں طغرل! دادی کی محبت والدین کی محبتوں کا نعم البدل نہیں ہوتی ہے اور اب تو میری محبت میں بھی غرض شامل ہوگئی ہے۔ میرے بیماریوں اور بڑھاپے سے ناتواں ہوتے وجود کے لیے وہ لاٹھی بن گئی ہے۔“ ان کی کمزور آواز میں تاسف و ملال ابھرنے لگا تھا۔
” محبت میں جب غرض شامل ہوجائے تو وہ محبت نہیں رہتی، غرض بن جاتی ہے اور تمہیں اعتراض ہے اس کی غیر موجودگی میں، میں کیوں اس کو پکارتی ہوں، کیوں بات بات پر یاد کرتی ہوں؟“

”دادی جان! میں نے آپ کو دکھی کر دیا ہے۔“ وہ نادم ہوگیا۔

”ایسی بات نہیں ہے بیٹا! بس میں چاہتی ہوں، تم پری کے خلاف مت ہوا کرو۔ وہ میرے بڑھاپے کی لاٹھی ہے سہارا ہے میرا۔

”پھر وہی اس کو اہمیت دینے والی بات کررہی ہیں آپ! میں سہارا نہیں ہوں آپ کا؟ آپ کی لاٹھی نہیں بن سکتا…؟“

”ہاں، تم دونوں ہی میرا سہارا ہو، تم یہاں نہیں تھے، میں تم سے تب بھی اتنی محبت کرتی تھی، جتنی آج کرتی ہوں لیکن پری اس دور میں بھی میری خدمت کرتی تھی، اب بھی کرتی ہے اور وہی لمحہ لمحہ مجھے یاد آتی ہے۔“

”چلیں لیٹیں! آج میں آپ کی ٹانگیں دباتا ہوں۔

###

رات بھر بارش برسی تھی۔

صبح ہر شے دھل کر نکھر گئی تھی۔ مہینوں کی گرد پانی کے سنگ بہہ چکی تھی۔ پیڑ پودوں نے ہریالی کی ردائیں اوڑھ لی تھیں۔ رنگ برنگے پھولوں کے شوخ رنگوں میں مزید شوخیاں بھرگئی تھیں۔

”کاش ! کوئی ایسی بارش بھی ہو جو رشتوں پر پڑی گرد ہمیشہ کے لیے بہا کر لے جائے۔ محبت کی مہک، اپنائیت کی خوش بُوسے رشتے ان پھولوں سے زیادہ مہک اٹھیں۔
“ وہ لان میں ٹہل رہی تھی۔ آسمان پر سرمئی اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ ہوا کے جھونکے خوش گوار محسوس ہورہے تھے۔ وہ ازحد حساس تھی۔ ایسا ہی موسم اس کے اندر عجیب بے گانہ سا درد جگادیا کرتا تھا۔ جس کی کسک اندر ہی اندر اس کو مضطرب کردیتی تھی۔ اب بھی ماحول کی خوب صورتی نے اس کو افسردگی میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔ معاً آہٹ پر اس نے چہرہ اوپر کیا تو اپنے سامنے نانو کو پایا پھر وہ آکر اس کے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔

”اتنے حسین موسم میں بھی اداس بیٹھی ہو پری بیٹے!“ انہوں نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا تھا۔

”نامعلوم کیوں یہ بھیگا بھیگا موسم مجھے پریشان کردیتا ہے؟“

”کیوں ہوتی ہو پریشان؟ یہ عمر پریشان ہونے کی نہیں ہے چندا!“

”جب کوئی نصیب ہی ایسے لے کر پیدا ہو تو عمر اور وقت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے نانو!“ وہ شانے اُچکاکر بددلی سے گویا ہوئی۔

”نصیب تو آپ کے بہت اچھے ہیں پھر ایسے کیوں سوچتی ہیں؟“ ان کی بات پر زخمی نظروں سے پری نے نانی کی طرف دیکھا تھا اور ایسی نظروں کا مفہوم وہ اچھی طرح جانتی تھیں، سوچپ رہیں۔

”اللہ نہ کرے، جو کسی کے نصیب میری طرح اچھے ہوں، مجھے تو اپنا وجود ہی بے معنی لگتا ہے۔ وہاں پاپا سے احساس وانسیت کا کوئی رشتہ نہیں ہے، صرف خون کا رشتہ ہے تو یہاں مما نے کبھی ماں کے جذبوں سے لبریز دل کے ساتھ سینے سے نہیں لگایا۔
بے حد سرسری انداز میں گلے لگا کر پل بھر میں دور ہوجاتی تھیں، پھر بہت عام سے انداز میں رسمی گفتگو کرکے اٹھ جانا میرے تشنہ دل کو مزید تشنہ کردیتا ہے، میری محرومیوں کو مزید بڑھادیتا ہے۔“

”آپ نے ناشتا اتنا ہلکا کیا ہے، رات ڈنر بھی ایسے ہی کیا تھا۔ آپ اسی وجہ سے اتنی کمزور ہورہی ہیں۔ مثنیٰ آپ کی طرف سے بہت فکرمند ہورہی ہیں، اپنا خیال رکھا کریں پری!“

”کس کے لیے خیال رکھوں اور کیوں؟“ پھر ایک درد کی لہر اس کو مضطرب کرگئی۔

”ملازمہ سے چکن سینڈوچ بنوادوں؟ بہت لذیذ بناتی ہے۔“

”ٹھیک ہے مما آجائیں تو ان کے ساتھ کھائیں گے۔“ ان کی خاطر اس کو ہامی بھرنی پڑی تھی۔ انہوں نے فوراً ملازمہ کو سینڈوچ اور چائے تیار کرکے لانے کا حکم دیا تھا۔ اسی اثناء میں مثنیٰ صفدر جمال کے ہمراہ وہاں سے چلی آئی تھیں۔ پری انہیں دیکھ کر نہ صرف کھڑی ہوئی تھی بلکہ صفدر جمال کو سلام بھی کیا تھا۔ صفدر جمال حیرانی سے پری کو دیکھتے رہ گئے تھے۔ نیلے اور سفید جدید تراش خراش کے سوٹ میں ملبوس نوخیز کلیوں ایسی پاکیزگی لیے چہرے کو وہ پہچان ہی نہ پائے تھے، مثنیٰ نے ان کو متحیر دیکھ کر کہا۔

”آپ اتنی حیرانی سے کیوں دیکھ رہے ہیں، یہ پری ہے۔“

”اوہ! میں واقعہ حیران ہوں۔“ وہ مسکراکر گویا ہوئے تھے۔

   2
0 Comments